Tuesday, 28 April 2020

پینٹاگون نے ’غلط فہمیاں دور کرنے کے لیے‘ اڑن طشتریوں کی ویڈیوز جاری کر دیں





امریکی محکمہ دفاع نے فضا میں نظر آنے والی غیر شناخت شدہ اشیا یا اڑن طشتریوں کی تین ویڈیوز جاری کر دی ہیں۔
پینٹاگون نے کہا ہے کہ ان ویڈیوز کو سرکاری طور پر جاری کرنے کا مقصد ان کے اصلی یا نقلی ہونے سے متعلق عوام کو غلط فہیموں سے بچانا ہے۔
یہ ویڈیوزسنہ 2007 اور سنہ 2017 میں بھی سامنے آ چکی ہیں۔
امریکہ کے موقر اخبار نیویارک ٹائمز نے دو ویڈیوز شائع کی تھیں جبکہ ایک گلوکار ٹام ڈی لانگ نے جاری کی تھی۔
جب یہ ویڈیوز پہلی بار منظر عام پر آئی تھیں تو کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ یو ایف اوز یا اجنبی برق رفتار جہاز ہیں۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق سنہ 2004 میں دو نیوی پائلٹوں نے بحرالکاہل میں سو میل اندر ایک گول سی چیز جو پانی کے اوپر اڑ رہی تھی کی ویڈیو بنائی تھی۔

پھر سنہ 2015 میں دو ایسی ویڈیوز بنائی گئیں جن میں دو غیر شناخت شدہ اشیا تھیں، جن میں سے ایک فضا میں گھوم رہی تھی۔ ایک ویڈیو میں ایک پائلٹ کو یہ کہتے ہوئے سنا گیا ’اس چیز کو دیکھو، یہ گول گول گھوم رہی ہے۔‘
پینٹاگون نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ایک بھرپور جائزے کے بعد محکمہ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ ’ان ویڈیوز کو عام کرنے سے ملک کے حساس نظام کی صلاحیت کسی طرح بھی متاثر نہیں ہوتی اور نہ ہی ان غیر شناخت شدہ اشیا کے ہماری فضائی حدود میں داخل ہونے سے متعلق مزید تحقیقات کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیش آتی ہے۔
'محکمہ دفاع ان ویڈیوز کو عوام میں غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے جاری کر رہا ہے۔‘
محکمے کے مطابق ان ویڈیوز میں جو چیزیں مشاہدے میں آئی ہیں انھیں ابھی ’غیر شناخت شدہ‘ تصور کیا جاتا ہے

علم کی شمع روشن کرنے والے ڈاکٹر ساجد اقبال شیخ تحسین کے مستحق ہیں

ڈاکٹر ساجد اقبال شیخ ، درویش صفت اور مخلوق خدا سے محبت کا جذبہ اپنے سینے میں رکھنے والے انسان ہیں ۔ جن کی زبان پر ہر وقت ذکر اللہ اور ذکر رسول ﷺ جاری رہتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کا چہرہ دیکھنے سے یاد خدا میں مجھ جیسا گنہگار شخص بھی اس طریقے سے غرق ہوجا تا ہے کہ پھر تعلق خدا کے علاوہ اور کوئی رستہ نہیں ملتا

شرقپور ایک تحصیل سطح کا قصبہ ہے جو کہ ضلع شیخوپورہ صوبہ پنجاب پاکستان میں واقع ہے۔ یہ قصبہ ویسے تو اولیا اکرام اور صوفی بزرگوں کے مزاروں کی وجہ سے جانا اور مانا جاتا ہے لیکن اسے خاص نسبت مشہور ولی اللہ حضرت میاں شیر محمد المعروف شیرربانی رحمتہ اللہ علیہ کی وجہ سے ہے۔ شرقپور شریف کی سر زمین نے بے شمار ایسے اولیا کرام، صوفیا کرام، دانشوروں، صحافیوں، شاعروں، سیاست دانوں، علما کرام اور مشائخ کرام کو جنم دیا ہے، جن کی ادبی سربلندی اور علمی سرفرازیوں کے چرچے ان کی جنم نگری کی محدود فضاوں سے ابھر کر لامحدود دنیائے علم وادب کا حصہ ہی نہیں بلکہ علم اودب کا افتخار اور تہذیب کا نگار بن چکے ہیں۔
یہاںآ کر محسوس ہوتا ہے کہ شرقپور کی سرزمین پر فطرت اپنے پورے حسن کے ساتھ مسکراتی نظر آتی ہے۔
یہاں کی فضاوں میں موجود محبت کی خوشبو دامن دل کھینچتی ہے اور امن وسکون نے یہاں کا معاشرہ اپنی آغوش میں لئے رکھا ہے۔ جس کا گوشہ گوشہ فیضان سے معمور اور بقعہ نور ہے۔ یہ دھرتی اسلامی تہذیب و تمدن کی زندہ مثال ہے۔ یہ زندہ دلوں کا مسکن ، گہوارہ علم وفن اور روحانیت کا مدفن ہے۔
شرقپور کی بنیاد مغل بادشاہ شاہ جہاں (جنوری 1592 تا 22 جنوری 1666 عیسوی) کے آخری دور میں رکھی گئی تھی۔ 1904 عیسوی میں شرقپور ضلع لاھور کی تحصیل تھا، 1911/12 عیسوی میں شرقپور ضلع گجرانولا کے تحت تھا۔ اس کے بعد یہ سب تحصیل اور اب ضلع شیخوپورہ کی تحصیل بن گیا ہے۔پاکستان کی تحریک آزادی میں شرقپور کے نوجوانوں نے ایک یادگار اور دلیرانا کردار ادا کیا۔
شرقپور کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ برطانوی حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک میں سب سے پہلے نوجوانوں کا جو اسکواڈ پکڑا گیا تھا ان کا تعلق شرقپور سے تھا۔ 
آج ہم آپ کو شرقپور کے ایسے ہی ایک سپوت ڈاکٹر ساجد اقبال شیخ سے متعارف کروائیں گے جنہوں نے آج سے 17سال پہلے اولیا و صوفیا کی سرزمین میں تعلیم کا ایسا بیج بویا جو آج ایک تن آور درخت کی مانند پورے شرقپور کو فیض یاب کر رہا ہے ۔
نہ صرف ڈاکٹر ساجد اقبال شیخ بلکہ ان کے بھائی عامر اقبال شیخ بھی علم کی شمع کو روشن کئے پورے علاقے میں روشنی پھیلانے میں مصروف عمل ہیں ۔ کم وبیش دو ہزار طلبا و طالبات ان کے تعلیمی ادارے ”دار ارقم “ میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور یہاں کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہاں دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ حفظ قرآن بھی کرایا جاتا ہے اور ہر سال بیسیوں حفاظ بچے یہاں تیار کئے جارہے ہیں ۔
مزیدسب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انتہائی کم فیس میں اعلیٰ تلیمی میعاراور سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ زیر تعلیم 80فیصد بچے تقریباََ مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ اس کے علاوہ ساجد اقبال شیخ ، یتیموں ، مسکینوں اور نادار لوگوں کی فلاح و بہبور کے لئے کام کر نے والے کئی اداروں میں بھی اپنی خدمات دے رہے ہیں ۔
بلا شبہ شرقپور کے اس” دار ارقم ‘ ‘اورمکہ کی وادی کوہ صفا میں واقع جناب حضرت ارقم بن ابی الارقم کے گھر ”رحمتہ اللعالمین ﷺنے ”دار ارقم“ کا لقب دیااور جسے مسلمانوں کا پہلی تعلیمی درسگاہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا تھا کے اغراض ومقاصد ایک ہیں ۔
یہی وہ نسبت ہے جوشرقپور کے دار ارقم کو ایک خاص اعراز بخشتی ہے جس کا چرچا صرف شرقپور تک ہی محدود نہیں بلکہ پاکستان اور دنیا کے کونے کونے تک پہنچ رہا ہے ۔ بطور ریسرچر جب ہمیں یہاں پڑھائے جانے والے تعلیمی نصاب اور یہاں زیر تعلیم طلبا و طالبات کی خصوصیات کا معلوم ہواتو ہم نے بھی شرقپور کا رخ کیا اور یہاں آکر ہماری حیرت گم ہوگئی کہ کیسے ضروریات زندگی کی آسائیشیں نہ ہونے کے باوجود ، یہاں بچوں کی اخلاقی اور فکری تربیت کی جا رہی ہے ۔
انہیں اس قابل بنایا جا رہا ہے کہ وہ جدید دور کے تمام تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک بہترین زندگی گذار سکتے ہیں جس میں جہاں دنیا میں کامیاب کیسے ہوا جائے اس کے ساتھ آخرت کی تیاری کیسے کی جائے ، جیسے کئی عنوانات پر سیر حاصل گفتگو ہوتی ہے ۔
ڈاکٹر ساجد اقبال شیخ ، درویش صفت اور مخلوق خدا سے محبت کا جذبہ اپنے سینے میں رکھنے والے انسان ہیں ۔
جن کی زبان پر ہر وقت ذکر اللہ اور ذکر رسول ﷺ جاری رہتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کا چہرہ دیکھنے سے یاد خدا میں مجھ جیسا گنہگار شخص بھی اس طریقے سے غرق ہوجا تا ہے کہ پھر تعلق خدا کے علاوہ اور کوئی رستہ نہیں ملتا ۔ میرا غالب گمان ہے کہ ڈاکٹر حافظ ساجد اقبال شیخ ، کا شمار بھی اولیا کی سرزمین ، شرقپور کے ان ولی خدا میں ہے جن کی بدولت ہم جیسے گنہگاروں کو مہلت مل رہی ہے اور یہ اور ان کے بھائی جس طرح علم کی شمع کو روشن کئے ہوئے ہیں بلاشبہ اس پر یہ تحسین کے مستحق ہیں 

شہد کی مکھیاں پالنے والے لوگ کیلے کا استعمال کیوں نہیں کرسکتے؟ جانیں مزیدار معلومات






شہد کی مکھی جسے سماجی کیڑا سمجھا جاتا ہے یعنی ایسی مکھی جو اچھے برے ہر قسم کے پھولوں سے تعلق رکھتی ہے ایک سے اڑ کر دوسرے پر جا بیٹھتی ہے ایک کا رس چوستی ہے اور باری باری ہر پھول پر جاکر اس سے تعلق قائم رکھتی ہے۔ یہ بڑی کارآمد اور رعب رکھنے والی مکھی ہے
یہ بات تو آپ سب ہی جانتے ہیں کہ شہد دراصل ہنی بی یا شہد کی مکھی کا فاضل اخراج شہد کو کہاجاتا ہے۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ شہد کی مکھیوں کو پالنے والے مالک اگر کیلے کو کھائیں یا اس کا استعمال کریں تو یہ مکھیاں ان کے ساتھ کیا کرتی ہیں
شہد کی مکھیوں کو کیلا بلکل بھی پسند نہیں ہے! جی ہاں! کیونکہ کیلے میں اسٹارچ اور فائبرز پائے جاتے ہیں جن کو شہد کی مکھی بلکل پسند نہین کرتی ہے اور جب اس کا مالک ن کو اپنے پاس رکھتا ہے اور ان کو کھا کر مکھی کے قریب جاتے ہیں تو یہ مکھیاں ان کو کاٹ لیتی ہیں، ان کے جسم کو جگہ جگہ سے ایسے کاٹ لیتی ہیں جیسے یہ کوئی ان کے دشمن ہوں۔
کیلے کے چھلکے تک مکھی کو گوارا نہیں لہٰذا یہ ہر گز اس جگہ نہیں جاتی جہاں کیلا موجود ہوتا ہے